بارش ہُوئی تو پھُولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفّاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر ہے
کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سُورج کی شہ پہ تِنکے بھی بے باک ہو گئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رُخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
سُورج دماغ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زُلفِ شبِ فراق کے پیچاک ہو گئے
جب بھی غریبِ شہر سے کُچھ گفتگو ہُوئی
لہجے ہَوائے شام کے نمناک ہو گئے
0 comments:
Post a Comment