Monday 1 October 2012

ان دو آنکھوں میں بہت دور کہیں





ان دو آنکھوں میں بہت دور کہیں
گزرے موہوم زمانوں کی خموشی پہنے
ایک محجوب خوشی رہتی ہے
صاف شفّاف فضاؤں میں

نگاہوں کی حدوں سے آگے
خواب آوارہ پرندوں کی طرح
دھیمے لہجہ میں
کسی گیت کا بازو تھامے
پھر میرے دل کی طرف آتے ہیں
ان دو آنکھوں سے کوئی جا کے کہے
آسمانوں سے زمیں پر آئیں
کوئی تارہ کوئی بادل کوئی نغمہ لے کر
کوئی دریا کوئی چشمہ کوئی جھونکا لے کر


Filled Under:

0 comments:

Post a Comment