ان دو آنکھوں میں بہت دور کہیں
گزرے موہوم زمانوں کی خموشی پہنے
ایک محجوب خوشی رہتی ہے
صاف شفّاف فضاؤں میں
نگاہوں کی حدوں سے آگے
خواب آوارہ پرندوں کی طرح
دھیمے لہجہ میں
کسی گیت کا بازو تھامے
پھر میرے دل کی طرف آتے ہیں
ان دو آنکھوں سے کوئی جا کے کہے
آسمانوں سے زمیں پر آئیں
کوئی تارہ کوئی بادل کوئی نغمہ لے کر
کوئی دریا کوئی چشمہ کوئی جھونکا لے کر
0 comments:
Post a Comment