Monday 1 October 2012

وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے





وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے

ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے

تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے
تمام عمر وفا کے گنہگار رہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے
شبِ خاموش کو تنہائی نے زباں دے دی
پہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھے
وہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار
جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے
نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے ذہن میں
ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے
یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے
ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھ

Filled Under:

0 comments:

Post a Comment